ہر ایک صبح تمنا کا شہر سجتا ہے
ہر ایک صبح تمنا کا شہر سجتا ہے
ہر ایک شب نئی دنیا بسائی جاتی ہے
اسی کا نام زمانے نے رکھ لیا آنسو
یہ میری پیاس جو آنکھوں میں آئی جاتی ہے
ہر ایک ذہن میں ہوتا ہے رنگ خاک وطن
زمیں کی خوشبو ضمیروں میں پائی جاتی ہے
بچیں تو کیسے بچیں اپنے سائے سے ناشرؔ
بدن کی دھوپ منڈیروں تک آئی جاتی ہے