پھل جو انگنائی کی دیواروں سے باہر آئیں گے

پھل جو انگنائی کی دیواروں سے باہر آئیں گے
اے درختو سوچ لو تم پر بھی پتھر آئیں گے


ہر قدم چونکائیں گے جو منزلوں کی راہ میں
سوچ کر چلنا یہاں ایسے بھی منظر آئیں گے


بس اسی امید پر کاٹے ہیں ہم نے روز و شب
کچھ نئے جگنو چمکتے اپنے بھی گھر آئیں گے


ہم یہاں پہنچے ہیں رکھ کر اپنے ہی سینے پہ پاؤں
دیکھنا ہے کون سے الزام اب سر آئیں گے


جان دینے کے لئے مقتل بھی ہے خود آشنا
جب بھی آئیں گے تو ہم بھی مسکرا کر آئیں گے