نا قابل بیان خطاؤں سے ڈر گئے
نا قابل بیان خطاؤں سے ڈر گئے
یہ بھی ہوا ہے لوگ دعاؤں سے ڈر گئے
کیا کیا گماں نہ تھے ہمیں دیوار و در کے بیچ
اونچائیوں پہ جا کے خلاؤں سے ڈر گئے
مجمع میں کر رہے تھے جو بے خوفیوں کی بات
تنہا ہوئے تو اپنی صداؤں سے ڈر گئے
چنگاریوں کے کھیل میں دامن جلا لیا
بھڑکی جو آگ تیز ہواؤں سے ڈر گئے
دن کیا چڑھا کہ ہو لئے سورج کے ساتھ ساتھ
سورج مکھی کے پھول شعاعوں سے ڈر گئے
مائل نہ دل ہوا کبھی انصاف کی طرف
قاضی بدن کی اپنی قباؤں سے ڈر گئے
ہر ہر خطا کو صرف نظر کر دیا گیا
ظالم یہ سن کے اپنی سزاؤں سے ڈر گئے
ہم ترک مے کشی کا ارادہ نہ کر سکے
موسم کی خنکیوں سے گھٹاؤں سے ڈر گئے
ناشرؔ ہمیں بچاتا رہا ہے خدا کا خوف
ڈھالے ہوئے خود اپنے خداؤں سے ڈر گئے