جواب بن نہ سکا عرض حال ہی نہ کیا
جواب بن نہ سکا عرض حال ہی نہ کیا
اسے گھٹن ہے کہ میں نے سوال ہی نہ کیا
ہم ایسے پیڑ کہ سورج نہ چھاؤں روک سکا
جھلستی دھوپ میں اپنا خیال ہی نہ کیا
ادا خلوص سے کی ہم نے رسم ترک وفا
اداس ہی نہ ہوئے اور ملال ہی نہ کیا
ادھر تھا شور جفا انتظار رد عمل
ادھر سکوت تھا چہرے کو لال ہی نہ کیا
سفر میں اوروں کو منزل ملی تو شاد ہوئے
چلے تو ایسے کہ اپنا خیال ہی نہ کیا