خامشی رکھی تو چاہت بڑھ گئی
خامشی رکھی تو چاہت بڑھ گئی
میری چپ سے اس کی ہمت بڑھ گئی
جب تلک تنہا تھا گھر میں شاد تھا
بزم میں آیا تو وحشت بڑھ گئی
اپنی بدنامی سے ظالم شاد ہے
ہو گیا رسوا تو شہرت بڑھ گئی
تھا یہ خود غرضی کا اک رد عمل
میرے لہجے کی بغاوت بڑھ گئی
میرے خط پر اس کا آنسو گر گیا
بات چھوٹی تھی عبارت بڑھ گئی