ڈوبتے سورج جیسا منظر لگتا ہے

ڈوبتے سورج جیسا منظر لگتا ہے
ہجر میں بوجھل آنکھوں سے ڈر لگتا ہے


گھس آتا ہے گھور اندھیرا شام ڈھلے
چاند جب آ جاتا ہے تو گھر لگتا ہے


وہ تو غموں کے بیچ بھی ہنستا رہتا ہے
اس کا سراپا نور کا پیکر لگتا ہے


جیون میں ہر شام سویرا اور سہی
کہاں کہاں پر اپنا بستر لگتا ہے


سب کے مکاں شیشے کے ہوتے جاتے ہیں
دیکھ کے میرے دل پر پتھر لگتا ہے


برف کے چھونے سے بھی جل جاتے ہیں ہاتھ
اور کبھی اک لفظ بھی خنجر لگتا ہے


جس جانب بھی دیکھوں پیوند ابر کے ہیں
امبر بھی بابا کی چادر لگتا ہے


اب وہ لوگ محافظ بن کے نکلے ہیں
جن کو اپنی ذات سے خود ڈر لگتا ہے


ہستی کو بے سمجھے بوڑھے ہونے لگے
جانے ناشرؔ کیوں یہ اکثر لگتا ہے