ناشر نقوی کی غزل

    دلوں پہ چھانے لگا دھڑکنوں کی جان ہوا

    دلوں پہ چھانے لگا دھڑکنوں کی جان ہوا جب ایک عمر گزاری تو میں جوان ہوا جو بولتا تھا تو مجھ سے شکایتیں تھی بہت میں چپ ہوا تو اسے خوف کا گمان ہوا سفر کا حوصلا رکھتا ہے اڑ بھی سکتا ہے یہ اور بات پرندہ لہولہان ہوا یہی سبب ہے کہ ہر دل میں جا کے بستا ہے مکان جس نے بنائے وہ لا مکان ...

    مزید پڑھیے

    وفا کی راہ میں دل کا سپاس رکھ دوں گا

    وفا کی راہ میں دل کا سپاس رکھ دوں گا میں ہر ندی کے کنارے پہ پیاس رکھ دوں گا کرے گی تشنہ لبی فیصلے صداقت کے جھلستے خیمے ترائی کے پاس رکھ دوں گا گلاب سرخ تبسم سے دیں گے میرا پتہ شفق میں اپنا میں خونی لباس رکھ دوں گا جہاں دلوں کو اندھیروں کا سامنا ہوگا وہاں میں اپنے چراغ حواس رکھ ...

    مزید پڑھیے

    شور مت کرنا ابھی میری غزل کے پیچھے

    شور مت کرنا ابھی میری غزل کے پیچھے حسرتیں سوئی ہیں اس تاج محل کے پیچھے غور کرتا ہوں تو کچھ ذائقہ بڑھ جاتا ہے آندھیاں جھیلی ہیں پیڑوں نے بھی پھل کے پیچھے بس یہی سوچ کے میں اپنے اٹھاتا ہوں قدم روح چلتی ہے بزرگوں کی عمل کے پیچھے

    مزید پڑھیے

    رنجشیں سب چھوڑ دیں سب سے لڑائی چھوڑ دی

    رنجشیں سب چھوڑ دیں سب سے لڑائی چھوڑ دی عیب تھا سچ بولنا میں نے برائی چھوڑ دی کوئے جاناں میں بھلا اب دیکھنے کو کیا ملا سن رہا ہوں آپ نے بھی بے وفائی چھوڑ دی ذہن میں ابھرے تھے یوں ہی بے وفا یاروں کے نام لکھتے لکھتے کیوں قلم نے روشنائی چھوڑ دی ہم سے پوچھو کس لیے خالی خزانے ہو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2