Naseem Syed

نسیم سید

ہند نژاد پاکستانی شاعرہ / کناڈا میں مقیم

Pakistani woman poet of Indian origin / Living in Canada

نسیم سید کی نظم

    میں گل نہیں

    میں گل نہیں مجھے دست صبا سے کام نہیں نہ مثل برگ نہ مانند گل نہ شاخ گلاب کہ تند و تیز ہواؤں سے کانپ کانپ اٹھوں کہ سرد و گرم سے موسم کے ڈر کے زیست کروں مجھے تو گرم ہواؤں نے مل کے پالا ہے زمیں کے حبس نے دم خم یہ مجھ میں ڈالا ہے کہ ایک ننھا سا بے حیثیت وجود مرا ذرا بھی نم جوں ہی مٹی میں ...

    مزید پڑھیے

    سمجھوتہ

    سمجھوتے کے دالانوں کی ہر چیز سجل سی ہوتی ہے ہر طاق سجا سا لگتا ہے اک فرض مسلسل کی دھن پر دو پیر تھرکتے رہتے ہیں ہاتھوں کی لکیروں میں لکھے دو بول کھنکتے رہتے ہیں ہمت کی چٹختی شاخوں سے کچے دن توڑے جاتے ہیں اور پال لگائی جاتی ہے راتوں کے بان کے بستر پر تہذیب کے گونگے جسموں کی سنجاب ...

    مزید پڑھیے

    تم سے کترا کے نکلنے کا سبب ہے کوئی

    تم سے کترا کے نکلنے کا سبب ہے کوئی مل کے تم سے بڑی تنہائی سی ہو جاتی ہے گھر تلک ساتھ اک آہٹ سی چلی آتی ہے سب کواڑوں کو ارادوں کو مقفل کر لو پر یہ آہٹ ہے کہ دیواروں سے چھن آتی ہے خاک اڑا کرتی ہے جس صحن میں سناٹے کی واں عجب شوق کا دربار لگا ہوتا ہے رقص کرتی ہے مرے پاؤں تلے میری زمیں ہوش ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کی تلاش

    سیڑھیاں آسمان کی چڑھ کے چاند کے ایک ایک کونے میں زندگی کو تلاش کرتے ہیں اور صومالیہ کے صحرا میں ایک مٹھی اناج کی خاطر زندگی ایڑیاں رگڑتی ہے بھوکے بچے سسک کے مرتے ہیں

    مزید پڑھیے

    دعا

    آج کا دن کہ تمہارا دن ہے آج کی دھوپ میں نرمی بھی ہے حدت بھی ہے بام سے اتری ہیں کرنیں تمہیں چھونے کے لیے تم کو چھو لیں تو جدھر سے گزریں رنگ کا نور کا خوشبو کا اجالا پھیلے ہر طرف پھیلے امر ہو جائے تم کو چھو لیں چمن سے گزریں سرخ پھولوں سے گلے مل کے کہیں آج ہر رنگ امر ہو جائے آج کا دن کہ ...

    مزید پڑھیے

    سوغات

    جشن نو روز بھی ہے جشن بہاراں بھی ہے شب مہتاب بھی جشن مہ تاباں بھی ہے سنتے ہیں آج ہی جشن شہ خوباں بھی ہے آ اے دل بے تاب چلیں ہم بھی وہاں جشن کی رات ہے سوغات تو بٹتی ہوگی اپنے حصہ کی چلیں ہم بھی اٹھا لیں سوغات درد کی آخری سینے سے لگا لیں سوغات اور پھر یوں ہو کہ جب شام ڈھلے اس میں بھیگ ...

    مزید پڑھیے

    ایشیا کی مزدور عورت

    تغاری سر پہ دھرے تر بہ تر پسینے سے اٹھائے مامتا کا بوجھ نو مہینے سے دہکتی ریت پہ اپنے قدم جمائے ہوئے مشقتوں کی نظر سے نظر ملائے ہوئے رتوں کے قہر کو یہ امتحان لگتی ہے یہ چاندنی سے بنی اک چٹان لگتی ہے ہنر کی چادر با زیب اس نے پہنی ہے معاشیات کی پازیب اس نے پہنی ہے پھٹے لباس پہ محنت کی ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    خوف کی چھوٹی چھوٹی چڑیاں میرے بچپن سے جو مجھ میں قید پڑی تھیں تاکیدوں کی جن کے پروں میں گرہیں لگی تھیں میں نے ان سب چڑیوں کے پر کھول دئیے

    مزید پڑھیے

    دیواروں کے پیچھے

    پھر کل رات میری آنکھیں بے خواب رہیں کمرے کی ساکت دیواروں کے اس پار وہی گرجتا وحشی لہجہ گھٹی گھٹی سسکی کو کتنی بے رحمی سے نوچ رہا تھا ڈوبتی رات کے سناٹے میں اس کی مدد کو کسے پکاروں کون آئے گا کوئی محافظ آیا بھی تو دیواروں کے اندر کے قانون کے آگے خود کو عاجز بتلائے گا اکثر ایسا ہی ...

    مزید پڑھیے

    اور سوچا کرتے ہیں

    بے دھیان لمحوں کے بے یقین آنگن میں کوئی بیج چاہت کا کیسے پھوٹ آتا ہے اک یقیں کی کونپل سے کیسے سیکڑوں شاخیں تن میں پھول جاتی ہیں کچھ سمجھ نہیں آتا دو ہتھیلیاں کیسے ایک جیسی سوچوں میں موم سی پگھلتی ہیں آگ سی سلگتی ہیں اور خبر نہیں ہوتی کوئی شوخ سی وحشت آتی جاتی سانسوں میں کھلکھلا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3