میں گل نہیں

میں گل نہیں
مجھے دست صبا سے کام نہیں
نہ مثل برگ نہ مانند گل نہ شاخ گلاب
کہ تند و تیز ہواؤں سے کانپ کانپ اٹھوں
کہ سرد و گرم سے موسم کے
ڈر کے زیست کروں
مجھے تو گرم ہواؤں نے مل کے پالا ہے
زمیں کے حبس نے
دم خم یہ مجھ میں ڈالا ہے
کہ ایک ننھا سا بے حیثیت وجود مرا
ذرا بھی نم جوں ہی مٹی میں اپنی پاتا ہے
زمیں کا چیر کے سینہ یہ پھوٹ آتا ہے
ہوا کے دھوپ کے باراں کے برف کے موسم
جنہیں یہ رشک چمن حادثات کہتے ہیں
یہ سینچتے ہیں مجھے میرا قد بڑھاتے ہیں
یہ حادثات تصرف میں میرے رہتے ہیں
گلاب بیلا چنبیلی او نسترن کے یہ پھول
یہ سیم تن ہیں
مرا ایسا کوئی نام نہیں
کھڑی ہوں تھام کے آندھی کی راس ہاتھوں میں
میں گل نہیں
مجھے دست صبا سے کام نہیں