سوغات

جشن نو روز بھی ہے
جشن بہاراں بھی ہے
شب مہتاب بھی
جشن مہ تاباں بھی ہے
سنتے ہیں آج ہی
جشن شہ خوباں بھی ہے
آ اے دل بے تاب
چلیں ہم بھی وہاں
جشن کی رات ہے
سوغات تو بٹتی ہوگی
اپنے حصہ کی چلیں
ہم بھی اٹھا لیں سوغات
درد کی آخری سینے سے
لگا لیں سوغات
اور پھر یوں ہو کہ
جب شام ڈھلے
اس میں بھیگ کے
گل مہر کی خوشبو پھیلے
یاد کی چاندنی
بے خواب دریچوں پہ گرے
پھر اسی جشن کی یہ رات
مرے کام آئے
درد کی آخری سوغات
مرے کام آئے
آخری شب شب آخر ٹھہرے
ضد پہ آیا ہوا یہ دل ٹھہرے
توڑ دوں شیشہ جو ہستی کا بھی
پھر جام آئے
کام آئے تو وہ سوغات
مرے کام آئے
جشن کی رات ہے یوں نذر گزاری جائے
ایک اک آرزو صدقے میں اتاری جائے