تم سے کترا کے نکلنے کا سبب ہے کوئی

تم سے کترا کے نکلنے کا سبب ہے کوئی
مل کے تم سے
بڑی تنہائی سی ہو جاتی ہے
گھر تلک ساتھ
اک آہٹ سی چلی آتی ہے
سب کواڑوں کو ارادوں کو
مقفل کر لو
پر یہ آہٹ ہے کہ
دیواروں سے چھن آتی ہے
خاک اڑا کرتی ہے
جس صحن میں سناٹے کی
واں عجب شوق کا دربار لگا ہوتا ہے
رقص کرتی ہے مرے پاؤں تلے
میری زمیں
ہوش کی بزم میں
مے خانہ سجا ہوتا ہے
قفل سارے مرے احساس کے
سب زنجیریں
نام لیتے ہیں کبھی جام کو ٹکراتے ہیں
خواب میرے
مجھے سمجھانے چلے آتے ہیں
دو گھڑی میں مرا ہر کام الٹ جاتا ہے
اس قدر شور مچاتے ہیں
یہ لمحات طرب
دھیان پلو سے بندھی
سوچ سے ہٹ جاتا ہے
خود کو ترتیب سے رکھنے میں اٹھانے میں مجھے
مل کے ہر بار
بڑا وقت بھی لگ جاتا ہے
تم سے رشتہ تو کوئی تھا
نہ ہی اب ہے کوئی
تم سے کترا کے نکلنے کا سبب ہے کوئی