دیواروں کے پیچھے

پھر کل رات
میری آنکھیں بے خواب رہیں
کمرے کی ساکت دیواروں کے اس پار
وہی گرجتا وحشی لہجہ
گھٹی گھٹی سسکی کو
کتنی بے رحمی سے نوچ رہا تھا
ڈوبتی رات کے سناٹے میں
اس کی مدد کو کسے پکاروں
کون آئے گا
کوئی محافظ آیا بھی تو
دیواروں کے اندر کے قانون کے آگے
خود کو عاجز بتلائے گا
اکثر ایسا ہی ہوتا تھا
اکثر بھور سمے تک وہ یوں ہی روتی تھی
لیکن آج اچانک کیوں خاموش ہوئی
خوف کی ٹھنڈک
میری روح تلک دھنس آئی
صبح سویرے
میں نے دیکھا
اس کے دروازے کے آگے
کچھ قانون کے رکھوالے
اک ایمبولنس کے پاس کھڑے تھے
امن کی خاطر
اب ان قاتل ہاتھوں میں
زنجیر پڑی تھی
میت ایمبولنس میں دھری تھی