لرزاں میں جو روح کے پردوں میں انوار لٹائے جاتی ہوں
لرزاں میں جو روح کے پردوں میں انوار لٹائے جاتی ہوں ہستی کے ذرے ذرے کو خورشید بنائے جاتی ہوں کچھ نکھرے نکھرے گیت ہیں جو ہونٹوں سے برستے رہتے ہیں اک میٹھی میٹھی آگ ہے جو ہر سو بھڑکائے جاتی ہوں خود اپنی لے کو سنتی ہوں خوش ہوتی ہوں سر دھنتی ہوں اشعار میں ڈھال کے اشکوں کو مستی میں ...