تنہائی
چھا رہی ہے مہیب خاموشی
بے کراں سی عجیب خاموشی
وقف حرمان و یاس بیٹھی ہوں
آہ کتنی اداس بیٹھی ہوں
دل میں کچھ نقش جگمگاتے ہیں
جس طرح خواب جھلملاتے ہیں
وہ ستم کاریاں یگانوں کی
سرد مہری وہ مہربانوں کی
کڑوی کڑوی بری بری باتیں
زہر میں وہ بجھی بجھی باتیں
چند دم توڑتے ہوئے نغمے
چند سائے سے آرزوؤں کے
زیست کی کائنات ہے ساری
زندگی ایک رات ہے ساری
رات اور موسم خزاں کی رات
رنج و آلام بے کراں کی رات
قبر سے بھی زیادہ تیرہ و تار
ہر نفس ایک آرزو کا مزار
تیرگی میں جہان کھویا سا
درد اک گیت میں سمویا سا
بجھ گئی شمع آرزؤں کی
دل میں اب داغ بھی نہیں کوئی
آہ دشواریاں غریبی کی
ہائے خودداریاں غریبی کی