اس نگاہ مست سے جب وجد میں آتی ہوں میں
اس نگاہ مست سے جب وجد میں آتی ہوں میں
کیف و رنگ و نور کی دنیا پہ چھا جاتی ہوں میں
کیا کہوں کیا ہے محبت کا فریب خود نگر
دیکھتی ہوں جس طرف خود ہی نظر آتی ہوں میں
چاہتی تو ہوں کہ موجوں سے رہوں دامن کشاں
کشتیٔ غم ہوں بھنور میں پھر بھی آ جاتی ہوں میں
صبح تک ٹھہرا نظر آتا ہے دور آسماں
جب تصور میں ترے راتوں کو کھو جاتی ہوں میں
جام گر پڑتا ہے ساقی تھرتھرا جاتے ہیں ہاتھ
تیری آنکھیں دیکھ کر نشے میں آ جاتی ہوں میں
ان کی آنکھیں دیر تک رہتی ہیں رشک کہکشاں
جب کبھی راتوں کو نجمہؔ یاد آ جاتی ہوں میں