معلومات نجمہؔ
خرابی اس کے پردوں میں نہاں معلوم ہوتی ہے
مری ہستی مجھی کو داستاں معلوم ہوتی ہے
وفور جوش سجدہ کی نہ پوچھو کار فرمائی
جبین شوق جزو آستاں معلوم ہوتی ہے
قوی ہوتا ہے جذب جستجو ہر نا مرادی سے
بظاہر سعئ پیہم رائیگاں معلوم ہوتی ہے
پیام دلبری دیتی ہے مجھ کو کس لگاوٹ سے
ادائے حسن دل کی رازداں معلوم ہوتی ہے
مری تربت پہ رکھا ہاتھ کس رشک مسیحا نے
رگ سنگ لحد نبض تپاں معلوم ہوتی ہے
نہاں ہیں حسن کی رعنائیاں پہنائے عالم میں
جبھی تو آج تک دنیا جواں معلوم ہوتی ہے
دماغ اپنا قدم رکھتے ہی پہونچا عرش اعلیٰ پر
زمین کوئے جاناں آسماں معلوم ہوتی ہے
لگا رہتا ہے دھڑکا رنج و غم کا عیش و عشرت میں
ہر اک راحت جہاں کی غم نشاں معلوم ہوتی ہے
مرا درد نہاں ہے آشکارا میری صورت سے
خموشی بھی مری نجمہؔ فغاں معلوم ہوتی ہے