Najma Tasadduq

نجمہ تصدق

  • 1917

نجمہ تصدق کی غزل

    لرزاں میں جو روح کے پردوں میں انوار لٹائے جاتی ہوں

    لرزاں میں جو روح کے پردوں میں انوار لٹائے جاتی ہوں ہستی کے ذرے ذرے کو خورشید بنائے جاتی ہوں کچھ نکھرے نکھرے گیت ہیں جو ہونٹوں سے برستے رہتے ہیں اک میٹھی میٹھی آگ ہے جو ہر سو بھڑکائے جاتی ہوں خود اپنی لے کو سنتی ہوں خوش ہوتی ہوں سر دھنتی ہوں اشعار میں ڈھال کے اشکوں کو مستی میں ...

    مزید پڑھیے

    خود مٹ گئی نہ پا سکی تیرے نشاں کو میں

    خود مٹ گئی نہ پا سکی تیرے نشاں کو میں سمجھی تھی سہل شوق کی راہ گراں کو میں یہ آرزوئے جوش تجسس کا ہے مآل بھولا ہے کارواں مجھے اور کارواں کو میں سوز جنوں کی آگ سے اک روز پھونک دوں وہم و گماں کو جذبۂ سود و زیاں کو میں تاروں کی مست چھاؤں میں اب بھی کبھی کبھی کرتی ہوں یاد بھولی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    جلووں کو باریاب کئے جا رہی ہوں میں

    جلووں کو باریاب کئے جا رہی ہوں میں قلب و نظر خراب کئے جا رہی ہوں میں بہکی ہوں میں لطیف جوانی کے کیف میں ہر چیز کو شراب کئے جا رہی ہوں میں کتنا بلند ہے مری تعمیر کا مذاق تاروں کو آفتاب کئے جا رہی ہوں میں کیوں میں گناہ عشق سے ڈرتی ہوں اس قدر ہستی کو کیوں عذاب کئے جا رہی ہوں ...

    مزید پڑھیے

    اس نگاہ مست سے جب وجد میں آتی ہوں میں

    اس نگاہ مست سے جب وجد میں آتی ہوں میں کیف و رنگ و نور کی دنیا پہ چھا جاتی ہوں میں کیا کہوں کیا ہے محبت کا فریب خود نگر دیکھتی ہوں جس طرف خود ہی نظر آتی ہوں میں چاہتی تو ہوں کہ موجوں سے رہوں دامن کشاں کشتیٔ غم ہوں بھنور میں پھر بھی آ جاتی ہوں میں صبح تک ٹھہرا نظر آتا ہے دور ...

    مزید پڑھیے

    کرم تیرا کہ سوز جاودانی لے کے آئی ہوں

    کرم تیرا کہ سوز جاودانی لے کے آئی ہوں مگر یہ کیا کہ میں اک عمر فانی لے کے آئی ہوں یہ کس کافر کی محفل ہے کہ جس میں نذر کرنے کو میں دل کی دھڑکنیں آنکھوں کا پانی لے کے آئی ہوں یہ دنیا یہ خلوص و عشق کے رنگ آفریں نغمے بیاباں میں گلستاں کی کہانی لے کے آئی ہوں بھڑک کر شعلہ بن جائے کہ بجھ ...

    مزید پڑھیے