جلووں کو باریاب کئے جا رہی ہوں میں
جلووں کو باریاب کئے جا رہی ہوں میں
قلب و نظر خراب کئے جا رہی ہوں میں
بہکی ہوں میں لطیف جوانی کے کیف میں
ہر چیز کو شراب کئے جا رہی ہوں میں
کتنا بلند ہے مری تعمیر کا مذاق
تاروں کو آفتاب کئے جا رہی ہوں میں
کیوں میں گناہ عشق سے ڈرتی ہوں اس قدر
ہستی کو کیوں عذاب کئے جا رہی ہوں میں
نجمہؔ نگاہ شوق کو حد نگاہ تک
جلووں سے فیض یاب کئے جا رہی ہوں میں