لرزاں میں جو روح کے پردوں میں انوار لٹائے جاتی ہوں
لرزاں میں جو روح کے پردوں میں انوار لٹائے جاتی ہوں
ہستی کے ذرے ذرے کو خورشید بنائے جاتی ہوں
کچھ نکھرے نکھرے گیت ہیں جو ہونٹوں سے برستے رہتے ہیں
اک میٹھی میٹھی آگ ہے جو ہر سو بھڑکائے جاتی ہوں
خود اپنی لے کو سنتی ہوں خوش ہوتی ہوں سر دھنتی ہوں
اشعار میں ڈھال کے اشکوں کو مستی میں گائے جاتی ہوں
دل اکثر چوٹیں سہتا ہے اور چپ چپ روتا رہتا ہے
گو سر تا پا غم ہوں لیکن ہنستی ہوں ہنسائے جاتی ہوں
موہوم سی ایک تمنا کی خاطر یہ حوادث توبہ ہے
پھولوں کی محبت میں کانٹے آنکھوں سے لگائے جاتی ہوں
کیا جانے کس سے کہتی ہوں خوابوں کے سنہرے افسانے
ٹھہرو کہ ابھی میں آتی ہوں ٹھہرو کہ بن آئے جاتی ہوں
معلوم کبھی یہ ہوتا ہے محصور ہوں چاند ستاروں میں
محسوس کبھی یہ کرتی ہوں ذروں میں سمائے جاتی ہوں
نجمہؔ پھر سندر سپنوں میں بننے لگے قصر امیدوں کے
پھر ریت کے گرتے ساحل پر بنیاد اٹھائے جاتی ہوں