شریک حیات
آدھی روٹی بستر کے آخری کونے ایک چھٹانک محبت دو گز چادر اور تین چٹکی عزت کے عوض عورت نے ایک ادھورے مرد کو اپنی پوری حیات میں شریک کر لیا
آدھی روٹی بستر کے آخری کونے ایک چھٹانک محبت دو گز چادر اور تین چٹکی عزت کے عوض عورت نے ایک ادھورے مرد کو اپنی پوری حیات میں شریک کر لیا
ہر چہرہ ایک کہانی ہے جب چہرے پڑھنا سیکھو گے تب کوئی کہانی لکھو گے ہر چہرہ پہ اک نقشہ ہے اس میں رستے ہی رستے ہیں یہ رستے بھول بھلیاں ہیں جب بھول بھلیاں بھٹکو گے تب کوئی کہانی لکھو گے ہر چہرہ ایک سمندر ہے ہر نقش کی اٹھتی لہروں میں جب پانی پانی اترو گے تب کوئی کہانی لکھو گے ہر چہرہ ...
رات کیسی مہربان ہے روتی آنکھوں کے راز اور بھیگے تکیوں کے سارے بھرم رکھ لیتی ہے رات سیاہ ہے مگر سفید آنکھوں کا ہاتھ پکڑ کر رنگین خوابوں کا راستہ دکھاتی ہے کھردرے جسم کی ساری شکنیں اپنے نازک بدن کی تہوں میں چھپا لیتی ہے کبھی اپنی گود میں لے کر تھپک تھپک کر سلاتی ہے کبھی کاندھے سے ...
گئے وقتوں میں محبت دل پہ لکھی انمٹ تحریر ہوتی تھی سنا ہے پتھر پر لکیر ہوتی تھی مگر اب ہاتھ میں تھامے کسی برقی آلے کے بٹنوں میں الجھی ہے انگلی اور انگوٹھے پر بوقت ضرورت تھرکتی رہتی ہے برقی پیغامات کے خانے میں پڑے چند بے لباس فقرے محبت کی علامت بن گئے ہیں کسی پرانے دور میں محبت دل ...
میں نے کمرے کی کھونٹی پر تیرا انتظار ٹانگ دیا ہے اور میری بے قرار آنکھیں کمرے کی چوکھٹ پر دھری ہیں تیرے فراق کے سیاہ لمحوں کی باتیں کرتی میری ساری نظمیں کمرے کی دیواروں پر چسپاں ہیں میری آتی جاتی سانسیں گھڑی کی سوئیوں سے بندھی ہیں اور تمہارے امرت رس ٹپکاتے جملے میرے دھیان کا پلو ...
سفید چنبیلی کی ہری شاخوں پر سیاہ گلاب کھل سکتا ہے ستارے رات کی اونگھتی سیڑھیوں سے چھلانگ لگا کر زمین پر آ سکتے ہیں چاند اور سورج کسی آسمانی پل میں ملاقات پر متفق ہو سکتے ہیں مکڑی اپنے جالے میں انسان کو پھانس سکتی ہے سمندر دریا کے قدموں میں گر سکتا ہے درختوں پر ہیرے اگ سکتے ...
میں ہر رات تمہارا تصور سرہانے رکھ کے سوتی ہوں اور صبح جاگنے پر مجھے تکیے کے نیچے اک نظم ملتی ہے ہو بہ ہو تمہارے جیسی
وہ جب مجھ سے بولتا ہے تو دنیا کی ساری آوازیں میٹھی تانیں مدھر زبانیں اس کے اک اک میٹھے بول پہ سر دھنتی ہیں اس کی باتیں سات سروں میں ایک انوکھا سر بنتی ہیں اتنا میٹھا لہجہ اس کا وہ بولے تو دنیا کی ساری آوازیں چپ رہ کر اس کو سنتی ہیں
ہمارے سامنے ہمارا رب موجود ہے مگر ہم اپنے اپنے مسلک کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ والی مسجدوں میں خواہشوں کے بت اپنی اپنی بغلوں میں دبائے کھڑے ہیں اور ہر بار ان بتوں کو سجدہ کرتے ہوئے ہمارا یقین مسجد کے میناروں کو چھو لیتا ہے کہ جنت میں بہتی شہد اور دودھ کی نہروں کے کناروں پر حوریں ہمیں خوش ...
کل شام مجھے بارش ملی باغ میں روتی ہوئی اس کی سسکیاں درختوں کی شاخوں پر اٹکی تھیں وہ بادل کا گھر چھوڑ آئی تھی میں نے اسے تأسف سے دیکھا رات کو میرے کمرے کی کھڑکی پر بکھرے بالوں والے پریشان بادل نے دستک دی وہ چاندنی کا ایک ٹکڑا ہاتھ میں لے کر بارش کو ڈھونڈ رہا تھا میں نے کھڑکی پہ ...