Muhammad Rashid Athar

محمّد راشد اطہر

محمّد راشد اطہر کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    مرے کردار کے روشن حوالے آپ رکھ لیجے

    مرے کردار کے روشن حوالے آپ رکھ لیجے مجھے دے کر خوشی میرے یہ نالے آپ رکھ لیجے مرے اشکوں سے تر یہ چند اوراق تمنا ہیں یہ مجھ سے تو نہیں جاتے سنبھالے آپ رکھ لیجے اگر مجنوں ہمیں رہنا ہے تو لیلیٰ بھی کوئی ہو مسافت ہم رکھیں پاؤں کے چھالے آپ رکھ لیجے ہمارے نام سے ہی فال کا آغاز کیجے ...

    مزید پڑھیے

    فقط تکمیل مقصد کر رہا ہوں

    فقط تکمیل مقصد کر رہا ہوں میں اپنے آپ کو رد کر رہا ہوں پرخچے کر کے آپ اپنی انا کے میں خود کو کار آمد کر رہا ہوں بھلا کر درد کی گدی نشینی ترے پہلو کو مسند کر رہا ہوں مری منشا کو خاطر میں نہ لاؤ میں کب سے تو رد و کد کر رہا ہوں تجھے یکسر بھلا ڈالا ہے یعنی تجھے میں یاد بے حد کر رہا ...

    مزید پڑھیے

    عاقبت نا شناس ہوں اور ہوں

    عاقبت نا شناس ہوں اور ہوں غم یہ ہے بے لباس ہوں اور ہوں تو زمانہ شناس تھا اور تھا میں محبت شناس ہوں اور ہوں تو بہت دور تھا اور آج نہیں میں ترے آس پاس ہوں اور ہوں لوگ مایوس ہو کے جا بھی چکے اور میں کب سے اداس ہوں اور ہوں لہر ہوتا تو بن کے مٹ جاتا میں کنارے کی گھاس ہوں اور ہوں سارا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی نذر مشق سخن کیا کبھی آنسوؤں میں بہا دیا

    کبھی نذر مشق سخن کیا کبھی آنسوؤں میں بہا دیا کہ ہمارے سر غم آگہی کا جو قرض تھا سو چکا دیا میں ہوں مہر وقت کا ہم نسب میں طلوع سحر کا ہوں سبب میں چراغ آخر شب نہیں کہ نہ خود بجھا تو بجھا دیا میں حقیقتوں کا اسیر ہوں ہے طلسم خواب و خیال تو تری روشنی ہے دھواں دھواں مری تیرگی بھی دیا ...

    مزید پڑھیے

    تری یادوں کا محشر کھینچتے ہیں

    تری یادوں کا محشر کھینچتے ہیں چلو پھر دن کا چکر کھینچتے ہیں سویرا آن بیٹھا ہے سروں پر اٹھو پھر شب کی چادر کھینچتے ہیں ہماری پیاس مثل دشت و صحرا ہم آنکھوں سے سمندر کھینچتے ہیں یہاں ہر سو سماں ہے جشن کا سا مگر ہم غم برابر کھینچتے ہیں تری مے کی نہیں یہ بات ساقی ہمیں اپنے ہی تیور ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 نظم (Nazm)

    اندوہ ناک

    میں اپنی آتش میں جل رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ لوگ مجھ سے ذرا ہی دور اک گڑھے کے اطراف یوں جمع تھے کہ جیسے دنیا کے سارے کاموں کو چھوڑ کر صرف میرے جلنے کے منتظر ہوں وہ دیر سے استخواں لحد میں اتارنے کے لیے کھڑے تھے وہ سب عزادار تھے مگر حسب عادت ہی پھبتیاں کس رہے تھے مجھ پر میں جل رہا ...

    مزید پڑھیے

    مصروفیت

    کل شب میرے بازو اس کی خوشبو میں تر تھے ساکت آنکھ کے پردے پر تصویر اسی کی تھی بالوں میں بھی لمس ابھی تک اس کے ہاتھ کا تھا خون کے بدلے شریانوں میں وعدے تھے اس کے کچھ الجھے انکار تھے چند ارادے تھے اس کے لیکن میرا دل اٹکا تھا کام کی الجھن میں اور میرا یہ ذہن آفس کی میز پہ رکھا تھا

    مزید پڑھیے

    کیا خبر تھی

    کیا خبر تھی ریاست اسلام مجرموں کی پناہ بھی ہوگی کیا خبر تھی یہ عدل کی جاگیر رحم کی قتل گاہ بھی ہوگی پائیں گے دشمنان دیں اعزاز قاتلوں کی رفاہ بھی ہوگی ظلم کے ہاتھ میں عصا ہوگا اور سر پر کلاہ بھی ہوگی جہل پائے گا علم پر سبقت اور خرد گرد راہ بھی ہوگی اعلیٰ عہدوں پہ ہوں گے سب نا ...

    مزید پڑھیے

    واہمہ

    میں اپنا سر بریدہ جسم لے کر چل پڑا ہوں مرے اک ہاتھ میں سر ہے میں اپنے سر میں ہوں یا جسم میں ہوں کبھی میں سر میں بیٹھا سوچتا ہوں کہ میں بے جسم رہ کر کس طرح پہچان قائم رکھ سکوں گا مرا ہونا تو میرے جسم سے ہے کبھی میں خود کو اپنے جسم میں محسوس ہوتا ہوں تو پھر سر یاد آتا ہے مگر بے سر ہوں یا ...

    مزید پڑھیے