عاقبت نا شناس ہوں اور ہوں

عاقبت نا شناس ہوں اور ہوں
غم یہ ہے بے لباس ہوں اور ہوں


تو زمانہ شناس تھا اور تھا
میں محبت شناس ہوں اور ہوں


تو بہت دور تھا اور آج نہیں
میں ترے آس پاس ہوں اور ہوں


لوگ مایوس ہو کے جا بھی چکے
اور میں کب سے اداس ہوں اور ہوں


لہر ہوتا تو بن کے مٹ جاتا
میں کنارے کی گھاس ہوں اور ہوں


سارا مضمون کون پڑھتا ہے
میں تو بس اقتباس ہوں اور ہوں


میرے ہونے کی صورتیں کیا ہیں
میں فقط اپنا ماس ہوں اور ہوں


بندگی مجھ کو راس ہو کہ نہ ہو
میں خدائی کو راس ہوں اور ہوں


مجھ پہ اک بوجھا ہے دوئی میری
اپنے ہونے کی پیاس ہوں اور ہوں