کبھی نذر مشق سخن کیا کبھی آنسوؤں میں بہا دیا

کبھی نذر مشق سخن کیا کبھی آنسوؤں میں بہا دیا
کہ ہمارے سر غم آگہی کا جو قرض تھا سو چکا دیا


میں ہوں مہر وقت کا ہم نسب میں طلوع سحر کا ہوں سبب
میں چراغ آخر شب نہیں کہ نہ خود بجھا تو بجھا دیا


میں حقیقتوں کا اسیر ہوں ہے طلسم خواب و خیال تو
تری روشنی ہے دھواں دھواں مری تیرگی بھی دیا دیا


میں ہی ربط وہم و گمان ہوں تری منزلوں کا نشان ہوں
کوئی سنگ راہ تو ہوں نہیں جسے ٹھوکروں سے ہٹا دیا


مری داستاں میں خوشی و رنج کے موڑ بھی تو عجیب تھے
کبھی قہقہوں میں بھی اشک تھے کبھی فرط غم نے ہنسا دیا