اندوہ ناک

میں اپنی آتش میں جل رہا تھا
تو میں نے دیکھا
کہ لوگ مجھ سے ذرا ہی دور
اک گڑھے کے اطراف یوں جمع تھے
کہ جیسے دنیا کے سارے کاموں کو چھوڑ کر
صرف میرے جلنے کے منتظر ہوں
وہ دیر سے
استخواں لحد میں اتارنے کے لیے کھڑے تھے
وہ سب عزادار تھے مگر
حسب عادت ہی پھبتیاں کس رہے تھے مجھ پر
میں جل رہا تھا
مگر مرے کان ان کی آواز سن رہے تھے
مری نگاہیں تلاش میں تھیں
کہ وار مجھ پر کیا تھا کس نے
میں سوچتا تھا کہ اپنے بجھنے سے پیشتر ہی
میں اپنی آنکھیں
ہوا کے جھونکوں سے باندھ دوں گا
پھر اس کے کچھ دیر بعد
مجھ کو شبیہ میری دکھائی دی تھی
میں اپنی آنکھوں میں جل رہا تھا
پگھل رہا تھا
اور اگلے لمحے
مری نظر جب دوبارہ اٹھی تو میں نے دیکھا
کہ میرا ہم زاد ایک پتھر کی آڑ لے کر
مرا ہی ڈھانچہ چبا رہا تھا