Muhammad Rashid Athar

محمّد راشد اطہر

محمّد راشد اطہر کی نظم

    اندوہ ناک

    میں اپنی آتش میں جل رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ لوگ مجھ سے ذرا ہی دور اک گڑھے کے اطراف یوں جمع تھے کہ جیسے دنیا کے سارے کاموں کو چھوڑ کر صرف میرے جلنے کے منتظر ہوں وہ دیر سے استخواں لحد میں اتارنے کے لیے کھڑے تھے وہ سب عزادار تھے مگر حسب عادت ہی پھبتیاں کس رہے تھے مجھ پر میں جل رہا ...

    مزید پڑھیے

    مصروفیت

    کل شب میرے بازو اس کی خوشبو میں تر تھے ساکت آنکھ کے پردے پر تصویر اسی کی تھی بالوں میں بھی لمس ابھی تک اس کے ہاتھ کا تھا خون کے بدلے شریانوں میں وعدے تھے اس کے کچھ الجھے انکار تھے چند ارادے تھے اس کے لیکن میرا دل اٹکا تھا کام کی الجھن میں اور میرا یہ ذہن آفس کی میز پہ رکھا تھا

    مزید پڑھیے

    کیا خبر تھی

    کیا خبر تھی ریاست اسلام مجرموں کی پناہ بھی ہوگی کیا خبر تھی یہ عدل کی جاگیر رحم کی قتل گاہ بھی ہوگی پائیں گے دشمنان دیں اعزاز قاتلوں کی رفاہ بھی ہوگی ظلم کے ہاتھ میں عصا ہوگا اور سر پر کلاہ بھی ہوگی جہل پائے گا علم پر سبقت اور خرد گرد راہ بھی ہوگی اعلیٰ عہدوں پہ ہوں گے سب نا ...

    مزید پڑھیے

    واہمہ

    میں اپنا سر بریدہ جسم لے کر چل پڑا ہوں مرے اک ہاتھ میں سر ہے میں اپنے سر میں ہوں یا جسم میں ہوں کبھی میں سر میں بیٹھا سوچتا ہوں کہ میں بے جسم رہ کر کس طرح پہچان قائم رکھ سکوں گا مرا ہونا تو میرے جسم سے ہے کبھی میں خود کو اپنے جسم میں محسوس ہوتا ہوں تو پھر سر یاد آتا ہے مگر بے سر ہوں یا ...

    مزید پڑھیے