الفت ہو جسے اسے ولی کہتے ہیں
الفت ہو جسے اسے ولی کہتے ہیں ایسوں کو سعید ازلی کہتے ہیں اس بزم میں دھوپ اٹھا کے آتے ہیں جو لوگ ہنس کر طوبیٰ لکم علی کہتے ہیں
لکھنؤ کے ممتاز ترین کلاسیکی شاعروں میں ۔ عظیم مرثیہ نگار
One of the most prominent classical poets at Lucknow, who excelled in Mersia poetry. Contemporary of Mirza Ghalib.
الفت ہو جسے اسے ولی کہتے ہیں ایسوں کو سعید ازلی کہتے ہیں اس بزم میں دھوپ اٹھا کے آتے ہیں جو لوگ ہنس کر طوبیٰ لکم علی کہتے ہیں
قطرے ہیں یہ سب جس کے وہ دریا ہے علی پنہاں ہے کبھی تو گاہ پیدا ہے علی ہوتا ہے گماں خدا کا جس پر ہر بار اللہ اللہ ایسا بندہ ہے علی
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے
دکھ میں ہر شب کراہتا ہوں یارب اب زیست کے دن نباہتا ہوں یارب طالب زر و مال کے ہیں سب دنیا میں میں تجھ سے تجھی کو چاہتا ہوں یارب
ظاہر وہی الفت کے اثر ہیں اب تک قربان شہہ جن و بشر ہیں اب تک ہوتے ہیں علم آگے جب اٹھتی ہے ضریح عباس علی سینہ سپر ہیں اب تک
اے شاہ کے غم میں جان کھونے والو اے ابن علی کے صدقے ہونے والو اس اجر عظیم کو نہ دو ہاتھوں سے اب دو ہی شبیں اور ہیں رونے والو
غفلت میں نہ کھو عمر کہ پچھتائے گا رونا ہی غم شاہ میں کام آئے گا اسباب تعلق سے نہ بھر دل اپنا چلتے ہوئے سب کچھ یہیں رہ جائے گا
اب زیر قدم لحد کا باب آ پہنچا ہشیار ہو جلد وقت خواب آ پہنچا پیری کی بھی دوپہر ڈھلی آہ انیسؔ ہنگام غروب آفتاب آ پہنچا
عصیاں سے ہوں شرمسار توبہ یارب کرتا ہوں میں بار بار توبہ یارب نہ جرم کا پایاں نہ گناہوں کا شمار اک توبہ تو کیا ہزار توبہ یارب
آدم کو یہ تحفہ یہ ہدیہ نہ ملا ایسا تو کسی بشر کو پایا نہ ملا اللہ ری لطافت تن پاک رسول ڈھونڈا کیا آفتاب سایہ نہ ملا