Javed Siddiqi Azmi

جاوید صدیقی اعظمی

جاوید صدیقی اعظمی کی غزل

    زوال شب تک وہ رفتہ رفتہ چراغ تنہا جو جل رہا ہے

    زوال شب تک وہ رفتہ رفتہ چراغ تنہا جو جل رہا ہے وہ پل کہ جس کا میں منتظر تھا وہ دیکھو منظر بدل رہا ہے فضا میں خوشبو بھی جاں فزا ہے عجب ہواؤں میں نغمگی ہے یہ کس کی آمد ہے کون ہے وہ یہ دل کیوں اتنا مچل رہا ہے تمہیں ضرورت نہیں کہ پوچھو ہمارے گھر کا پتہ کسی سے وہیں پہ رک کر کے دیکھ لینا ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کو آزمانے جا رہے ہو

    ہوا کو آزمانے جا رہے ہو چراغ دل جلانے جا رہے ہو اسی در پر سنورتا ہے مقدر جہاں سر کو جھکانے جا رہے ہو جو سنگ میل ہے راہ وفا کا اسے رستہ بتانے جا رہے ہو میاں حالات اب اچھے نہیں ہیں کبوتر کیوں اڑانے جا رہے ہو ڈگر ہے عشق کی آساں نہ سمجھو تم اپنا گھر جلانے جا رہے ہو بڑے دل والے ہو ...

    مزید پڑھیے

    شکایت اب نہیں مجھ کو کسی سے

    شکایت اب نہیں مجھ کو کسی سے مگر آنکھوں کا رشتہ ہے نمی سے محافظ اب چراغوں کا وہی ہے جو واقف ہی نہیں کچھ روشنی سے گنوا دوں کیسے میں اس طرح یوں ہی تجھے پایا ہے میں نے بندگی سے نگاہوں سے پلا دیتا ہے جب وہ سنبھلتا میں نہیں ہوں پھر کسی سے یہیں پر ختم ہوتی ہے کہانی جدا اب ہو رہا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    آپ دینے کو کیا نہیں دیتے

    آپ دینے کو کیا نہیں دیتے بس وفا کا صلہ نہیں دیتے راہ ان کی بہت کشادہ ہے جو کبھی راستہ نہیں دیتے میں بھی رسماً سلام کرتا ہوں دل سے وہ بھی دعا نہیں دیتے میں یہی سوچتا ہوں میں اکثر وہ مجھے کیوں بھلا نہیں دیتے صرف تجھ کو پکارتے ہیں ہم ہر کسی کو صدا نہیں دیتے ان سے جاویدؔ جنگ لازم ...

    مزید پڑھیے

    موسم گل پھر آنے لگا ہے

    موسم گل پھر آنے لگا ہے پھر وہی غم ستانے لگا ہے آنکھ کی یہ نمی کہہ رہی ہے یاد پھر کوئی آنے لگا ہے دیکھ کر اس کے ہاتھوں میں پتھر آئنہ مسکرانے لگا ہے اب سراپا غزل بن گئے وہ ہر کوئی گنگنانے لگا ہے پوری کر دی کسر عاشقی نے جا کے دل اب ٹھکانے لگا ہے آؤ جاویدؔ ہم بھی چلیں اب بزم سے وہ ...

    مزید پڑھیے

    ظلم حد سے گزرتا رہا

    ظلم حد سے گزرتا رہا اشک فریاد کرتا رہا ڈر نہیں دشمنوں کا مجھے اپنے سائے سے ڈرتا رہا اس کا کردار تھا آئنہ عمر بھر میں سنورتا رہا پوچھ کر خیریت وہ مری اور بیمار کرتا رہا زندگی تیری تعمیر میں ٹوٹ کر میں بکھرتا رہا ایک پل کی خوشی کے لئے آدمی روز مرتا رہا رنگ محفل تو بدلا ...

    مزید پڑھیے

    ستم کب ان پہ ڈھایا ہے کسی نے

    ستم کب ان پہ ڈھایا ہے کسی نے بس آئینہ دکھایا ہے کسی نے فلک سے خوں کی بارش کیوں نہ ہوتی زمیں کا دل دکھایا ہے کسی نے مری آنکھیں چھلکنے لگ گئیں ہیں تعلق کیا نبھایا ہے کسی نے سیاست کھیل ہے جادوگری کا تماشائی بنایا ہے کسی نے بہت نازک بدن ہے شاعری کا کہ جیسے گل اٹھایا ہے کسی نے بڑی ...

    مزید پڑھیے

    کیا عجب اپنی زندگانی ہے

    کیا عجب اپنی زندگانی ہے نا مکمل سی اک کہانی ہے پھول کھلنے لگے ہیں یادوں کے اب طبیعت میں کچھ روانی ہے خون ٹپکا ہے میری آنکھوں سے اک مسیحا کی مہربانی ہے خود کو کلمہ پڑھا لیا ہم نے پھر بھی عادت وہی پرانی ہے وہ کتابوں میں رہ گیا لیکن اس کی زندہ ابھی کہانی ہے ایک تو ہی نہ تھا مرا ...

    مزید پڑھیے