ہوا کو آزمانے جا رہے ہو
ہوا کو آزمانے جا رہے ہو
چراغ دل جلانے جا رہے ہو
اسی در پر سنورتا ہے مقدر
جہاں سر کو جھکانے جا رہے ہو
جو سنگ میل ہے راہ وفا کا
اسے رستہ بتانے جا رہے ہو
میاں حالات اب اچھے نہیں ہیں
کبوتر کیوں اڑانے جا رہے ہو
ڈگر ہے عشق کی آساں نہ سمجھو
تم اپنا گھر جلانے جا رہے ہو
بڑے دل والے ہو جاویدؔ صاحب
گلے ان کو لگانے جا رہے ہو