شکایت اب نہیں مجھ کو کسی سے

شکایت اب نہیں مجھ کو کسی سے
مگر آنکھوں کا رشتہ ہے نمی سے


محافظ اب چراغوں کا وہی ہے
جو واقف ہی نہیں کچھ روشنی سے


گنوا دوں کیسے میں اس طرح یوں ہی
تجھے پایا ہے میں نے بندگی سے


نگاہوں سے پلا دیتا ہے جب وہ
سنبھلتا میں نہیں ہوں پھر کسی سے


یہیں پر ختم ہوتی ہے کہانی
جدا اب ہو رہا ہوں زندگی سے


وہی جاویدؔ تھا مطلوب اس کو
فرشتہ بن گیا جو آدمی سے