ستم کب ان پہ ڈھایا ہے کسی نے
ستم کب ان پہ ڈھایا ہے کسی نے
بس آئینہ دکھایا ہے کسی نے
فلک سے خوں کی بارش کیوں نہ ہوتی
زمیں کا دل دکھایا ہے کسی نے
مری آنکھیں چھلکنے لگ گئیں ہیں
تعلق کیا نبھایا ہے کسی نے
سیاست کھیل ہے جادوگری کا
تماشائی بنایا ہے کسی نے
بہت نازک بدن ہے شاعری کا
کہ جیسے گل اٹھایا ہے کسی نے
بڑی راحت ملی جاویدؔ دل کو
گلے سے جب لگایا ہے کسی نے