ظلم حد سے گزرتا رہا
ظلم حد سے گزرتا رہا
اشک فریاد کرتا رہا
ڈر نہیں دشمنوں کا مجھے
اپنے سائے سے ڈرتا رہا
اس کا کردار تھا آئنہ
عمر بھر میں سنورتا رہا
پوچھ کر خیریت وہ مری
اور بیمار کرتا رہا
زندگی تیری تعمیر میں
ٹوٹ کر میں بکھرتا رہا
ایک پل کی خوشی کے لئے
آدمی روز مرتا رہا
رنگ محفل تو بدلا نہیں
لاکھ کوشش میں کرتا رہا
کون جاویدؔ دل میں ترے
رفتہ رفتہ اترتا رہا