موسم گل پھر آنے لگا ہے
موسم گل پھر آنے لگا ہے
پھر وہی غم ستانے لگا ہے
آنکھ کی یہ نمی کہہ رہی ہے
یاد پھر کوئی آنے لگا ہے
دیکھ کر اس کے ہاتھوں میں پتھر
آئنہ مسکرانے لگا ہے
اب سراپا غزل بن گئے وہ
ہر کوئی گنگنانے لگا ہے
پوری کر دی کسر عاشقی نے
جا کے دل اب ٹھکانے لگا ہے
آؤ جاویدؔ ہم بھی چلیں اب
بزم سے وہ بھی جانے لگا ہے