کیا عجب اپنی زندگانی ہے
کیا عجب اپنی زندگانی ہے
نا مکمل سی اک کہانی ہے
پھول کھلنے لگے ہیں یادوں کے
اب طبیعت میں کچھ روانی ہے
خون ٹپکا ہے میری آنکھوں سے
اک مسیحا کی مہربانی ہے
خود کو کلمہ پڑھا لیا ہم نے
پھر بھی عادت وہی پرانی ہے
وہ کتابوں میں رہ گیا لیکن
اس کی زندہ ابھی کہانی ہے
ایک تو ہی نہ تھا مرا ورنہ
ساری دنیا مری دیوانی ہے
زندہ جاوید ذات ہے اس کی
اور جو کچھ بھی ہے وہ فانی ہے