زوال شب تک وہ رفتہ رفتہ چراغ تنہا جو جل رہا ہے

زوال شب تک وہ رفتہ رفتہ چراغ تنہا جو جل رہا ہے
وہ پل کہ جس کا میں منتظر تھا وہ دیکھو منظر بدل رہا ہے


فضا میں خوشبو بھی جاں فزا ہے عجب ہواؤں میں نغمگی ہے
یہ کس کی آمد ہے کون ہے وہ یہ دل کیوں اتنا مچل رہا ہے


تمہیں ضرورت نہیں کہ پوچھو ہمارے گھر کا پتہ کسی سے
وہیں پہ رک کر کے دیکھ لینا دھواں جہاں سے نکل رہا ہے


یہی ہے انجام زندگی کا لہو میں ڈوبا ہے دیکھو سورج
چمک رہا تھا جو آسماں پر اب اس کا سایہ بھی ڈھل رہا ہے


عجب ہے یادوں کا یہ تسلسل کہ جیسے جھڑیاں لگی ہوئی ہیں
یوں دل سلگنے لگا ہے میرا دماغ جاویدؔ جل رہا ہے