کہیں اولوں کی برساتیں کہیں موتی کی سوغاتیں (ردیف .. ی)
کہیں اولوں کی برساتیں کہیں موتی کی سوغاتیں
نہایت مصلحت اندیش ہیں اب بدلیاں اس کی
بلا شبہ وہی قاتل ہے اپنے عہد کا لیکن
شہادت کون دے کہ سامنے ہے وردیاں اس کی
شہیدان وفا بوئے گئے ہیں اب کے موسم میں
کہ لالہ زار ہو جائیں لہو سے کھیتیاں اس کی
لہو آشام دریا اس طرح ہم سر خرو اترے
کہ اب تک ہچکیاں لیتی رہی ہیں ندیاں اس کی
دمکتے چاند تارے شبنم و گل صبح کا منظر
ابھی بکھری پڑی ہیں ہر طرف انگڑائیاں اس کی
نہ پھر کیوں درد کی لذت مشام جاں میں لہرائے
قمرؔ جب گدگدائیں خود بخود پروائیاں اس کی