Iliyas Babar Aawan

الیاس بابر اعوان

الیاس بابر اعوان کی غزل

    کفیل ساعت سیار رکھا ہوتا ہے

    کفیل ساعت سیار رکھا ہوتا ہے کہ ہم نے دل یونہی سرشار رکھا ہوتا ہے میں رکھ کے جاتا ہوں کھڑکی میں کچھ گلاب کے پھول کسی نے سایۂ دیوار رکھا ہوتا ہے عجیب لوگ ہیں دیوار شب پہ چلتے ہیں چراغ جیب میں بے کار رکھا ہوتا ہے کبھی کبھار اسے پھل پھول لگنے لگتے ہیں ہمارے شانوں پہ جو بار رکھا ...

    مزید پڑھیے

    اپنا اپنا دکھ بتلانا ہوتا ہے

    اپنا اپنا دکھ بتلانا ہوتا ہے مٹی سے تصویر میں آنا ہوتا ہے میری صبح ذرا کچھ دیر سے ہوتی ہے مجھے کسی کو خواب سنانا ہوتا ہے نئے نئے منظر کا حصہ بنتا ہوں جیسے جیسے جسم پرانا ہوتا ہے اک چڑیا مجھ سے بھی پہلے اٹھتی ہے جیسے اس کو دفتر جانا ہوتا ہے یار کتابیں کتنی جھوٹی ہوتی ہیں ان میں ...

    مزید پڑھیے

    بول سکتے ہیں مگر بات نہیں کر سکتے

    بول سکتے ہیں مگر بات نہیں کر سکتے وقت ایسا ہے سوالات نہیں کر سکتے فیس بک کا بھی تعلق ہے تعلق کیسا دیکھ سکتے ہیں ملاقات نہیں کر سکتے اتنا گہرا ہے یہاں کنج خرافات کا شور لوگ اب طرفہ مناجات نہیں کر سکتے اڑ تو جائیں شجر خام کے زنداں سے ہم دوست ہے دوست سے ہم ہاتھ نہیں کر سکتے اتنا ...

    مزید پڑھیے

    دل میں کتنی وحشت پالی جا سکتی ہے

    دل میں کتنی وحشت پالی جا سکتی ہے بیچ کی کوئی راہ نکالی جا سکتی ہے تیرے چھوٹے سے دل میں میں کیا آؤں گا لیکن اک تصویر سنبھالی جا سکتی ہے ذہن بڑا سفاک مصور ہو سکتا ہے سانس تلک زنجیر میں ڈھالی جا سکتی ہے ایسا ہو تو دسترخوان کھلا کر دینا چٹکی میں گھر کی بد حالی جا سکتی ہے جس پر بڑے ...

    مزید پڑھیے

    صرف آزار اٹھانے سے کہاں بنتا ہے

    صرف آزار اٹھانے سے کہاں بنتا ہے مجھ سا اسلوب زمانے سے کہاں بنتا ہے آنکھ کو کاٹ کے کچھ نوک پلک سیدھی کی زاویہ سیدھ میں آنے سے کہاں بنتا ہے کچھ نہ کچھ اس میں حقیقت بھی چھپی ہوتی ہے واقعہ بات بنانے سے کہاں بنتا ہے حسن یوسف سی کوئی جنس بھی رکھو اس میں ورنہ بازار سجانے سے کہاں بنتا ...

    مزید پڑھیے

    میرا اور پھولوں کا رشتہ ٹوٹ گیا

    میرا اور پھولوں کا رشتہ ٹوٹ گیا کھڑکی بند ہوئی اور سپنا ٹوٹ گیا چڑیاں کب آنکھوں سے باتیں کرتی ہیں صبح ہوئی گھر کا سناٹا ٹوٹ گیا باغ کی ویرانی کا عینی شاہد ہوں تنہائی کے بوجھ سے جھولا ٹوٹ گیا آج بھی میرا ہاتھ پکڑ کر گھومے گی آج پھر اس لڑکی کا چشمہ ٹوٹ گیا پیڑ اور دل میں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    نہ جانے کون ترے کاخ و کو میں آئے گا

    نہ جانے کون ترے کاخ و کو میں آئے گا جو آئے گا وہ مری آرزو میں آئے گا میں جانتا ہوں مرے بعد میرے مرقد پر کوئی غبار مری جستجو میں آئے گا یہی تو سوچ کے جلتے ہیں مسجدوں کے چراغ درون شب یہاں کوئی وضو میں آئے گا ترے خیال کی لو سے چمک اٹھے ہیں حروف ابھی تو تو مرے حرف نمو میں آئے گا مجھے ...

    مزید پڑھیے

    ہمارا آئنہ بے کار ہو گیا تو پھر!

    ہمارا آئنہ بے کار ہو گیا تو پھر! تمہارا حسن طرحدار ہو گیا تو پھر! ملا کے خاک میں وہ سوچتا رہا برسوں میں آئنے میں نمودار ہو گیا تو پھر! رکاوٹیں تو سفر کا جواز ہوتی ہیں یہ راستہ کہیں ہموار ہو گیا تو پھر! وہ ماہتاب ہے، میں جھیل اور سفر درپیش وہ مجھ سے ہوتا ہوا پار ہو گیا تو ...

    مزید پڑھیے

    رجسٹروں میں کہاں غم شماری ہوتی ہے

    رجسٹروں میں کہاں غم شماری ہوتی ہے یہ کیفیت ہے جو چہروں پہ طاری ہوتی ہے ہم ایسے لوگ بھی ناکام اسی میں ہوتے ہیں وہ کام جس میں بہت جان ماری ہوتی ہے کہ زخم بھول کے سب داد دینے لگتے ہیں اس اہتمام سے تخریب کاری ہوتی ہے کسی کا بھی نہیں ہوتا ہے صرف اپنے سوا وہ شخص جس کی یہاں سب سے یاری ...

    مزید پڑھیے

    دیے جلیں گے تو پھر روشنی تو ہوگی ناں

    دیے جلیں گے تو پھر روشنی تو ہوگی ناں کلاس فیلو ہیں ہم دوستی تو ہوگی ناں نظر جھکائے یوں ہی پاس سے نہیں گزرا فریب کار کو شرمندگی تو ہوگی ناں یہ میرا فیض نہیں خانوادے کا ہے مزاج سو میرے چاروں طرف روشنی تو ہوگی ناں ہمارے جیب تراشوں کے حسن ظن کو سلام کہ زر ہوا نہ ہوا شاعری تو ہوگی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3