صرف آزار اٹھانے سے کہاں بنتا ہے
صرف آزار اٹھانے سے کہاں بنتا ہے
مجھ سا اسلوب زمانے سے کہاں بنتا ہے
آنکھ کو کاٹ کے کچھ نوک پلک سیدھی کی
زاویہ سیدھ میں آنے سے کہاں بنتا ہے
کچھ نہ کچھ اس میں حقیقت بھی چھپی ہوتی ہے
واقعہ بات بنانے سے کہاں بنتا ہے
حسن یوسف سی کوئی جنس بھی رکھو اس میں
ورنہ بازار سجانے سے کہاں بنتا ہے
اس میں کچھ وحشت دل بھی تو رکھی جاتی ہے
باغ بس پھول اگانے سے کہاں بنتا ہے
راستہ بنتا ہے تشکیل نظر سے بابرؔ
خاک کی خاک اڑانے سے کہاں بنتا ہے