دیے جلیں گے تو پھر روشنی تو ہوگی ناں

دیے جلیں گے تو پھر روشنی تو ہوگی ناں
کلاس فیلو ہیں ہم دوستی تو ہوگی ناں


نظر جھکائے یوں ہی پاس سے نہیں گزرا
فریب کار کو شرمندگی تو ہوگی ناں


یہ میرا فیض نہیں خانوادے کا ہے مزاج
سو میرے چاروں طرف روشنی تو ہوگی ناں


ہمارے جیب تراشوں کے حسن ظن کو سلام
کہ زر ہوا نہ ہوا شاعری تو ہوگی ناں


کبھی جو آنکھوں سے کرتے تھے آج کہنا پڑیں
ہماری باتوں میں بے ربطگی تو ہوگی ناں


پرندے اپنے ٹھکانوں پہ اڑ کے جا چکے ہیں
ہمارے نان و نمک میں کمی تو ہوگی ناں