Iliyas Babar Aawan

الیاس بابر اعوان

الیاس بابر اعوان کے تمام مواد

28 غزل (Ghazal)

    کفیل ساعت سیار رکھا ہوتا ہے

    کفیل ساعت سیار رکھا ہوتا ہے کہ ہم نے دل یونہی سرشار رکھا ہوتا ہے میں رکھ کے جاتا ہوں کھڑکی میں کچھ گلاب کے پھول کسی نے سایۂ دیوار رکھا ہوتا ہے عجیب لوگ ہیں دیوار شب پہ چلتے ہیں چراغ جیب میں بے کار رکھا ہوتا ہے کبھی کبھار اسے پھل پھول لگنے لگتے ہیں ہمارے شانوں پہ جو بار رکھا ...

    مزید پڑھیے

    اپنا اپنا دکھ بتلانا ہوتا ہے

    اپنا اپنا دکھ بتلانا ہوتا ہے مٹی سے تصویر میں آنا ہوتا ہے میری صبح ذرا کچھ دیر سے ہوتی ہے مجھے کسی کو خواب سنانا ہوتا ہے نئے نئے منظر کا حصہ بنتا ہوں جیسے جیسے جسم پرانا ہوتا ہے اک چڑیا مجھ سے بھی پہلے اٹھتی ہے جیسے اس کو دفتر جانا ہوتا ہے یار کتابیں کتنی جھوٹی ہوتی ہیں ان میں ...

    مزید پڑھیے

    بول سکتے ہیں مگر بات نہیں کر سکتے

    بول سکتے ہیں مگر بات نہیں کر سکتے وقت ایسا ہے سوالات نہیں کر سکتے فیس بک کا بھی تعلق ہے تعلق کیسا دیکھ سکتے ہیں ملاقات نہیں کر سکتے اتنا گہرا ہے یہاں کنج خرافات کا شور لوگ اب طرفہ مناجات نہیں کر سکتے اڑ تو جائیں شجر خام کے زنداں سے ہم دوست ہے دوست سے ہم ہاتھ نہیں کر سکتے اتنا ...

    مزید پڑھیے

    دل میں کتنی وحشت پالی جا سکتی ہے

    دل میں کتنی وحشت پالی جا سکتی ہے بیچ کی کوئی راہ نکالی جا سکتی ہے تیرے چھوٹے سے دل میں میں کیا آؤں گا لیکن اک تصویر سنبھالی جا سکتی ہے ذہن بڑا سفاک مصور ہو سکتا ہے سانس تلک زنجیر میں ڈھالی جا سکتی ہے ایسا ہو تو دسترخوان کھلا کر دینا چٹکی میں گھر کی بد حالی جا سکتی ہے جس پر بڑے ...

    مزید پڑھیے

    صرف آزار اٹھانے سے کہاں بنتا ہے

    صرف آزار اٹھانے سے کہاں بنتا ہے مجھ سا اسلوب زمانے سے کہاں بنتا ہے آنکھ کو کاٹ کے کچھ نوک پلک سیدھی کی زاویہ سیدھ میں آنے سے کہاں بنتا ہے کچھ نہ کچھ اس میں حقیقت بھی چھپی ہوتی ہے واقعہ بات بنانے سے کہاں بنتا ہے حسن یوسف سی کوئی جنس بھی رکھو اس میں ورنہ بازار سجانے سے کہاں بنتا ...

    مزید پڑھیے

تمام

12 نظم (Nazm)

    غیر نصابی تاریخ

    شاہی دربار میں خادم‌ خاص کا اعلان تخلیہ رقص جنوں خیز پہ نوخیز بدن شہر میں آدم خاکی کے لہو کی قیمت دینے آئے ہیں مہاراج کے میخانے میں رنگ اور نور کی برسات کے بیچ کون دیکھے گا بے سر کی لاشیں نو بدن جام تحیر کا نیا ذائقہ ہیں جن پہ دو لخت کیے جاتے ہیں ملکوں کے بدن شاہی دربار میں ...

    مزید پڑھیے

    آدمی

    لا انتہا جہان مجسم سے بھی سوا لا منتہا زمانوں میں رہتے ہوئے یہ ابد قرنوں سے رینگتی ہوئی تقویم کائنات آب و گل و شعور سر دو جہاں عدم لا فلسفہ نہایت فہم پیمبری ذوق نمو کی ہاتھ میں ریکھائیں دم بدم کیا جانیے کہ کتنے برس کا ہے یہ چراغ تہذیب سوختہ ہے ایاغ حروف میں فکر و خرد کی بحر و تلاطم ...

    مزید پڑھیے

    اے مرے خواب

    اے مرے خواب ہنر خیز روایت کے امیں انکشافات کی دریوزہ گری چھوڑ بھی دے گرد ہنگام میں ترتیب سے رکھ آنکھ کی خستہ فصیلوں سے گرے خشت مزاج ان چنے زرد گلوں سے ڈھکے کچھ سوختہ پل سمت کا کوئی تعین تو نظر میں ٹھہرے اے مرے خواب مرے ساتھ نہ چل مجھے درپیش ہے لا سمت سماج ایک ویرانی تماشے میں ...

    مزید پڑھیے

    پاگل

    دیکھ نی مائے؟ سندر ماتھے کی ریکھائیں تیرے ہاتھ کی ریکھاؤں سے ملتی جلتی اتر دکھن پورب پچھم ایک سفر ہے ٹانواں ٹانواں دیکھ گلابی آگ پہ سینکی ڈب کھڑبی روٹی جیسا چہرا میرا دیکھ نی مائے سرسوں جیسے ہاتھ تھے میرے ہرے ہرے کنگن کی چنی گیٹہ گیٹہ بالن چننا ان کو مہنگا پڑ جائے گا کب سوچا ...

    مزید پڑھیے

    اسکیپ اِزم

    چل کہ صد چاک گریباں وہاں ہو آتے ہیں یہ جو ہنگامۂ ہستی ہے ذرا دیر کو چھوڑ ایک بے انت مسافت کے ادھر بیٹھتے ہیں یاد کرتے ہیں پری خانوں کی تلخابی کو اپنی آزردہ تمناؤں پہ رو لیتے ہیں گرد میں رکھے ہوئے اشک فسردہ چہرے گئے وقتوں کا تذبذب نئے وقتوں کا عذاب آ کہ شانوں سے گرا آتے ہیں اس پار ...

    مزید پڑھیے

تمام