Iliyas Babar Aawan

الیاس بابر اعوان

الیاس بابر اعوان کی غزل

    گھر کو جانے کا راستہ نہیں تھا

    گھر کو جانے کا راستہ نہیں تھا ورنہ کرنے کو کیا سے کیا نہیں تھا مجھے کہتا تھا چھوڑ دے مجھ کو اور مرا ہاتھ چھوڑتا نہیں تھا کام سارے درست تھے میرے جب مجھے کوئی ٹوکتا نہیں تھا لوگ آنکھوں سے آتے جاتے تھے حرف جب راستہ بنا نہیں تھا تب کہیں لوگ جانتے تھے مجھے جب مجھے کوئی جانتا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ لڑکا لڑکی کوئی مسئلہ سمجھ رہے ہیں

    یہ لڑکا لڑکی کوئی مسئلہ سمجھ رہے ہیں انہیں خبر ہی نہیں لوگ کیا سمجھ رہے ہیں ہمارے مل کے بچھڑنے میں اس کا ہاتھ بھی تھا مگر یہ لوگ مجھے ہی برا سمجھ رہے ہیں میں ان کو پانی پلانے کے واسطے کھڑا ہوں جو مجھ کو پیاس کا مارا ہوا سمجھ رہے ہیں میں خامشی کو عبادت کے جیسے جانتا ہوں سمجھنے ...

    مزید پڑھیے

    غلام زادوں میں کوئی غلام ہے ہی نہیں

    غلام زادوں میں کوئی غلام ہے ہی نہیں ہمارے شہر میں سچ کا نظام ہے ہی نہیں یہ لوگ جلد ہی پتھر میں ڈھلنے والے ہیں یہاں کسی سے کوئی ہم کلام ہے ہی نہیں میں دیکھتا ہوں انہیں اور گزرتا جاتا ہوں تمام چہرے ہیں چہروں کے نام ہے ہی نہیں تمہاری مرضی ہے رکھ لو ہمیں یا ٹھکرا دو ہمارے پاس محبت ...

    مزید پڑھیے

    باغ اک دن کا ہے سو رات نہیں آنے کی

    باغ اک دن کا ہے سو رات نہیں آنے کی وہ پری پھر سے مرے ہات نہیں آنے کی اب وہ لڑکی نہیں آنے کی مرے کالج میں اب کے ملتان سے سوغات نہیں آنے کی تم چلی جاؤ یہ پتھر نہیں پہلے جیسا آنکھ سے جوئے مناجات نہیں آنے کی اب جو یہ وصل ہے اس وصل کو بے کار سمجھ ہم پہ رنگینیٔ حالات نہیں آنے کی دیکھ لو ...

    مزید پڑھیے

    ورنہ بے معنی و بے کار گنے جائیں گے

    ورنہ بے معنی و بے کار گنے جائیں گے شکر ہم تیرے طرف دار گنے جائیں گے ہم پہ وہ دھوپ ابھی ٹھیک سے نکلی ہی نہیں ہم جہاں سایۂ دیوار گنے جائیں گے روز کچھ خواب بناتا ہے انہیں توڑتا ہوں ان میں سے ٹھیک تو دو چار گنے جائیں گے اس قدر آپ نے رکھا ہے ہنسی کو ارزاں کل کلاں آپ بھی بازار گنے ...

    مزید پڑھیے

    غموں کی بھیڑ میں رستہ بنا کے چلتا ہوں

    غموں کی بھیڑ میں رستہ بنا کے چلتا ہوں علی کی آل ہوں میں سر اٹھا کے چلتا ہوں ذرا سنبھل کے مرے راستے میں تم آنا میں اپنے گھر سے لہو آزما کے چلتا ہوں یہ تیرا شہر مری سانس چھین لیتا ہے میں اپنے گاؤں میں سینہ پھلا کے چلتا ہوں جو میری راہ میں پتھر گرا کے جاتا ہے میں اس کی راہ سے پتھر ...

    مزید پڑھیے

    مکین چھوڑ گئے خواب عین رات کے بیچ

    مکین چھوڑ گئے خواب عین رات کے بیچ کہ جیسے دکھ نکل آیا ہو میری بات کے بیچ میں جس سے ہاتھ ملاتا ہوں پھر نہیں ملتا نہ جانے کون سا رستہ ہے میرے ہاتھ کے بیچ وہ آج آئی تو میں دور سے ہی جان گیا میں جس کو ڈھونڈھتا رہتا تھا پھول پات کے بیچ اسی سبب سے تو مصرف کھلا تھا کانوں کا وہ ایک فون جو ...

    مزید پڑھیے

    دو عمروں کی روئی دھن کر آیا ہوں

    دو عمروں کی روئی دھن کر آیا ہوں میں پردیس سے خود کو بن کر آیا ہوں دریا سے یاری بھی کتنی مشکل ہے میں کشتی کے ٹکڑے چن کر آیا ہوں تم کو کتنا شوق ہے فون پہ باتوں کا آج بھی باس کی باتیں سن کر آیا ہوں جانے کون چرا لیتا تھا میرا وقت وال کلاک پہ جالا بن کر آیا ہوں آج کی شام گزاریں گے ہم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3