نادیدہ خلاؤں سے گزر آئی ہے
نادیدہ خلاؤں سے گزر آئی ہے کس طرح اٹھائے ہوئے سر آئی ہے احساس کے پیچیدہ مراحل کی قسم چہرے کی تھکن دل میں اتر آئی ہے
مشہور نظم کلکتہ: ایک رباب کے خالق
Wrote the widely popular poem 'Kalkatta: Ek Rubaab'
نادیدہ خلاؤں سے گزر آئی ہے کس طرح اٹھائے ہوئے سر آئی ہے احساس کے پیچیدہ مراحل کی قسم چہرے کی تھکن دل میں اتر آئی ہے
امیدوں کا اک ہار بن ٹوٹ گیا دل جیسے کوئی آبلہ تھا پھوٹ گیا دیکھا تھا نظر بھر کے جہاں دنیا کو احساس کا وہ موڑ کہاں چھوٹ گیا
چھایا ہے بگولوں کا فسوں منزل تک موجوں سے کہو لے کے چلیں ساحل تک کیوں الجھی ہوئی ڈور ہوئی جاتی ہے اک راہ وہ جاتی ہے جو دل سے دل تک
وہ تاج ہے سر پر کہ دبا جاتا ہوں کس راکھ میں کھویا سا چلا جاتا ہوں لمحات کے جھونکو نہ ستاؤ اتنا محسوس یہ ہوتا ہے بجھا جاتا ہوں
صحرا میں بھٹکتا ہوا اک دریا ہوں آیا نہ تڑپنا جسے وہ پارہ ہوں یہ کیا ہے یہ انداز رفاقت کیا ہے ہے ایک جہاں ساتھ مگر تنہا ہوں
احساس کے ہر رنگ کو اپنا لیتا ہنس لیتا گا لیتا غم کھا لیتا ادراک لگاتا ہے کچوکے ورنہ دل کو میں کھلونوں سے بھی بہلا لیتا
کیوں ذہن میں یہ کھولتا لاوا ہوتا خود آپ پہ رحم آئے نہ ایسا ہوتا ہونا تھا تعارف کہ قیامت ٹوٹی اے کاش کہ اپنے کو نہ جانا ہوتا