انا کا پرندہ
سمٹتے ہوئے سایوں کے فرش پر دیر سے یوں ہی بیٹھا ہوا ہوں کہ گزرے کوئی قافلہ جادۂ روز و شب سے تو پوچھوں کہ درماندگی کی سزا کیا ہے مجھ کو بتاؤ مگر ڈر رہا ہوں کہ کوئی مسافر مری بات پر مسکرایا تو میں کس طرح جی سکوں گا مری زندگی ایک سرکش انا ہے پرندے کی صورت عناصر کے زر کار پنجرے کی ...