Hina Ambareen Tariq

حنا امبرین طارق

حنا امبرین طارق کی غزل

    کوئی بستی نئی ہم تم کہیں آباد کرتے ہیں

    کوئی بستی نئی ہم تم کہیں آباد کرتے ہیں چلو آؤ کوئی رستہ نیا ایجاد کرتے ہیں سمندر ہو کہ صحرا ہو گل و گلزار ہو چاہے یہ ہم ہی لوگ ہیں جو ہر نگر آباد کرتے ہیں یہی خواہش تمہاری ہے کہ تم ہم سے بچھڑ جاؤ تو پھر جاؤ ابھی سے ہم تمہیں آزاد کرتے ہیں ہمیں تو آرزو یہ تھی قفس کو توڑ ڈالو ...

    مزید پڑھیے

    جو معترض کھڑے ہیں مری اس اڑان پر

    جو معترض کھڑے ہیں مری اس اڑان پر شکوہ نہ ان سے ہے نہ شکایت زبان پر وہ ہم سے پھر ملے گا کسی آسمان پر ہم ہیں کہ جی رہے ہیں فقط اس گمان پر پہنچے گا تیر میرا یہ اپنے نشان پر اتنا یقین مجھ کو ہے اپنی کمان پر تارے مری زمیں پہ جو سارے اتار دے میں اس کے سنگ سنگ اڑوں آسمان پر کب میں نے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی بہاروں کے موسموں میں جو دل کی بستی غزل سرا تھی

    کبھی بہاروں کے موسموں میں جو دل کی بستی غزل سرا تھی وہیں کہیں ایک آرزو کے مچلنے کی بھی بڑی کتھا تھی جلا کے جب ساری کشتیاں میں سمندروں کی بنی غذا تھی اسی گھڑی تو جبین شب پر لکھی گئی میری بھی دعا تھی بنا سہاروں کے زیست مشکل گزار آئے تو پھر یہ جانا کہ میں ہی اپنے حسیں چمن کا زمین نم ...

    مزید پڑھیے

    تیرے گلزار کی خوشبو سے سجا رہتا ہے

    تیرے گلزار کی خوشبو سے سجا رہتا ہے میرے دربار کا جو در ہے کھلا رہتا ہے ہر قدم ساتھ رہا کرتی ہیں یادیں تیری دھیان تیرا ہی در دل پہ دھرا رہتا ہے وسوسے یوں تو ڈراتے ہیں اندھیروں سے مگر میری راہوں میں بھی اک دیپ جلا رہتا ہے پھر مخالف کو میں دل دار بناؤں کیسے اب عنایات کا انداز جدا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ تو ہمارے درمیاں ہے دل لگی ابھی

    کچھ تو ہمارے درمیاں ہے دل لگی ابھی تیری نگاہ ناز میں ہے تشنگی ابھی خاموشیاں عجیب ہیں اس سرد شہر کی برفیلی اس ہوا میں ہے دیوانگی ابھی سوغات مل رہی ہے تری یاد کی مجھے اس ہجر نے سکھائی بہت شاعری ابھی وہ بیت ہی گئی جو اماوس کی رات تھی پھیلی ہے میرے چاروں طرف چاندنی ابھی جانے وہ ...

    مزید پڑھیے

    بیاں کیا کیجیے سوز دروں کو داستانوں میں

    بیاں کیا کیجیے سوز دروں کو داستانوں میں نکل کے تیر کب آتے ہیں واپس پھر کمانوں میں ہماری سوچ کے بادل ہیں اڑتے آسمانوں میں کرے گی یاد یہ دنیا ہمیں آتے زمانوں میں سبھی مل کر بچھڑ جائیں اگر گمنام ہو جائیں مکیں پھر کس لئے بستے ہیں ان اونچے مکانوں میں رہے وحشت زدہ کے ساتھ تو وحشت ...

    مزید پڑھیے

    میرا تجھ سے ستارہ مل رہا تھا

    میرا تجھ سے ستارہ مل رہا تھا کنارے سے کنارہ مل رہا تھا لکھا تھا نام میں نے جو خدا کا اسی کا بس سہارا مل رہا تھا تمہارے بعد ملنے ہجر آیا دکھی ہو کر دوبارہ مل رہا تھا نگاہوں میں کسی کی آس لے کر کسی سے دل ہمارا مل رہا تھا جو تھا اونچا تمہارا سلسلہ تو وہیں شجرہ ہمارا مل رہا ...

    مزید پڑھیے

    عدو کے شہر میں کب بے اثر ہوں

    عدو کے شہر میں کب بے اثر ہوں خدا کا شکر ہے جو معتبر ہوں ستارہ ہوں کہ میں روشن قمر ہوں دعا ماں کی ہے جس کا میں ثمر ہوں بہاریں کیوں نہ پھر سے لوٹ آئیں انہیں معلوم ہے میں بھی ادھر ہوں اسی صحرا سے میری نسبتیں ہیں جہاں کا میں ہی اک واحد شجر ہوں محبت جرم ہے کس نے کہا ہے بتا دو سب کو میں ...

    مزید پڑھیے

    مہکتا ہوا آج سارا چمن ہے

    مہکتا ہوا آج سارا چمن ہے بہاروں کا مسکن مرا ہی وطن ہے گلوں کا جو نکھرا ہوا سا بدن ہے عجب ہے نزاکت غضب بانکپن ہے سخن کا یہ رستہ بہت ہی کٹھن ہے مگر ہر سخنور اسی میں مگن ہے تو جاؤں کہاں اس گلی سے جو نکلوں کہیں بھی رکوں میں اسی کی لگن ہے کھڑے ہیں پریشاں یہاں پر سبھی جو جہاں دیکھتے ...

    مزید پڑھیے

    وہ اگر آئے تو پر نور سماں ہوتا ہے

    وہ اگر آئے تو پر نور سماں ہوتا ہے اس کے آنے سے ہی موسم یہ جواں ہوتا ہے حال دل کب یہ نگاہوں سے بیاں ہوتا ہے راز الفت نہ یہ اوروں پہ عیاں ہوتا ہے نا کبھی شور نہ ہی آہ و فغاں ہوتا ہے جو بھی ہوتا ہے فقط زیر زباں ہوتا ہے یوں گزرتا ہے ملاقات کا ہر اک لمحہ جیسے لمحات کا دریا یہ رواں ہوتا ...

    مزید پڑھیے