کبھی بہاروں کے موسموں میں جو دل کی بستی غزل سرا تھی

کبھی بہاروں کے موسموں میں جو دل کی بستی غزل سرا تھی
وہیں کہیں ایک آرزو کے مچلنے کی بھی بڑی کتھا تھی


جلا کے جب ساری کشتیاں میں سمندروں کی بنی غذا تھی
اسی گھڑی تو جبین شب پر لکھی گئی میری بھی دعا تھی


بنا سہاروں کے زیست مشکل گزار آئے تو پھر یہ جانا
کہ میں ہی اپنے حسیں چمن کا زمین نم تھی شجر گھنا تھی


محبتیں بھی رفاقتیں بھی عداوتیں اور ندامتیں بھی
مرا اثاثہ میں جانتی تھی کہاں وفا تھی کہاں جفا تھی


وراثتوں کی کتاب کھولی تو نام میرا کہیں نہیں تھا
میں چپ تھی سوچا کہ اس میں شاید مرے قبیلے کی بھی رضا تھی


جلے گا دل تو دھواں اٹھے گا یہ آگ ایسے نہیں بجھے گی
نگر نگر یہ خبر پہنچتی مگر ہوا کی عجب دشا تھی


بہت پکارا تھا منزلوں نے حناؔ مجھے ان ہی راستوں سے
مگر مسلسل سفر تھا میرا کہیں نہ رکنے میں ہی بقا تھی