میرا تجھ سے ستارہ مل رہا تھا

میرا تجھ سے ستارہ مل رہا تھا
کنارے سے کنارہ مل رہا تھا


لکھا تھا نام میں نے جو خدا کا
اسی کا بس سہارا مل رہا تھا


تمہارے بعد ملنے ہجر آیا
دکھی ہو کر دوبارہ مل رہا تھا


نگاہوں میں کسی کی آس لے کر
کسی سے دل ہمارا مل رہا تھا


جو تھا اونچا تمہارا سلسلہ تو
وہیں شجرہ ہمارا مل رہا تھا


تمہارے عہد کے ہم منحرف تھے
یہی الزام سارا مل رہا تھا


چلے آؤ کہ اب یہ رات بیتے
کہ شب سے دن کا تارا مل رہا تھا


حناؔ یہ راز ہم نے دل میں رکھا
ملا جو بھی تمہارا مل رہا تھا