عدو کے شہر میں کب بے اثر ہوں
عدو کے شہر میں کب بے اثر ہوں
خدا کا شکر ہے جو معتبر ہوں
ستارہ ہوں کہ میں روشن قمر ہوں
دعا ماں کی ہے جس کا میں ثمر ہوں
بہاریں کیوں نہ پھر سے لوٹ آئیں
انہیں معلوم ہے میں بھی ادھر ہوں
اسی صحرا سے میری نسبتیں ہیں
جہاں کا میں ہی اک واحد شجر ہوں
محبت جرم ہے کس نے کہا ہے
بتا دو سب کو میں دل میں اگر ہوں
بلا کا حوصلہ مجھ کو ملا ہے
بہت دشوار ہے رستہ جدھر ہوں
جسے سن کر سبھی حیران ہیں کیوں
تمہیں لگتا ہے میں ایسی خبر ہوں
دریچے میں جو رکھا جل رہا ہے
دیا ایسا ہوا کے دوش پر ہوں
بلندی چھو کے آؤں آسماں کی
پرندہ ہوں سدا محو سفر ہوں
تمہارے عہد کی ہوں منحرف تو
سزا مل کر رہے گی با خبر ہوں