کچھ تو ہمارے درمیاں ہے دل لگی ابھی
کچھ تو ہمارے درمیاں ہے دل لگی ابھی
تیری نگاہ ناز میں ہے تشنگی ابھی
خاموشیاں عجیب ہیں اس سرد شہر کی
برفیلی اس ہوا میں ہے دیوانگی ابھی
سوغات مل رہی ہے تری یاد کی مجھے
اس ہجر نے سکھائی بہت شاعری ابھی
وہ بیت ہی گئی جو اماوس کی رات تھی
پھیلی ہے میرے چاروں طرف چاندنی ابھی
جانے وہ کون لوگ تھے جو کر گئے وفا
تم سے تو ہو سکی نہ ذرا دلبری ابھی
اب بھی حناؔ سہے گا نہ جانے وہ کتنے غم
قسمت میں اس کی ہے لکھی یہ بے گھری ابھی