جو معترض کھڑے ہیں مری اس اڑان پر
جو معترض کھڑے ہیں مری اس اڑان پر
شکوہ نہ ان سے ہے نہ شکایت زبان پر
وہ ہم سے پھر ملے گا کسی آسمان پر
ہم ہیں کہ جی رہے ہیں فقط اس گمان پر
پہنچے گا تیر میرا یہ اپنے نشان پر
اتنا یقین مجھ کو ہے اپنی کمان پر
تارے مری زمیں پہ جو سارے اتار دے
میں اس کے سنگ سنگ اڑوں آسمان پر
کب میں نے کوئی بات نرالی ہے کی یہاں
کیوں سب مچل گئے ہیں مرے اک بیان پر
محشر نہ ہو بپا تو ہو پھر اور کیا بتا
سب کو یقیں ہے اس کی غضب داستان پر
تم نے کہا کہ مان تمہیں میری چاہ پر
دل تم کو دے رہی ہوں تمہارے ہی مان پر
حالانکہ اونچ نیچ سے واقف نہیں مگر
ہم کر رہے غرور ہیں اردو زبان پر