مہکتا ہوا آج سارا چمن ہے
مہکتا ہوا آج سارا چمن ہے
بہاروں کا مسکن مرا ہی وطن ہے
گلوں کا جو نکھرا ہوا سا بدن ہے
عجب ہے نزاکت غضب بانکپن ہے
سخن کا یہ رستہ بہت ہی کٹھن ہے
مگر ہر سخنور اسی میں مگن ہے
تو جاؤں کہاں اس گلی سے جو نکلوں
کہیں بھی رکوں میں اسی کی لگن ہے
کھڑے ہیں پریشاں یہاں پر سبھی جو
جہاں دیکھتے ہیں فضا میں گھٹن ہے
بظاہر جو کرتے ہیں الفت کی باتیں
انہی کے دلوں میں حسد ہے جلن ہے
حناؔ تم بتا دو کہاں ہے وہ منزل
یہ رستہ ہے کیسا یہ کیسی تھکن ہے