Hasnain Aqib

حسنین عاقب

حسنین عاقب کی غزل

    خانۂ دل کہ معطر بھی بہت لگتا ہے

    خانۂ دل کہ معطر بھی بہت لگتا ہے تیری یادوں سے منور بھی بہت لگتا ہے گرچہ ہلکا سا دھندلکا ہے تصور بھی ترا بند آنکھوں کو یہ منظر بھی بہت لگتا ہے سوچتے ہیں کہ جئیں گے تجھے جی بھر کے مگر زندگی تجھ سے ہمیں ڈر بھی بہت لگتا ہے پوچھ ہم سے کہ حقیقت میں ہے کیا تیرا وجود تیرے شانوں پہ یہ اک ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے ساتھ یہ جھوٹے فقیر رہتے ہیں

    تمہارے ساتھ یہ جھوٹے فقیر رہتے ہیں ہمارے ساتھ تو منکر نکیر رہتے ہیں ہماری کم نظری سے جو ہو گئے محدود انہی مزاروں میں روشن ضمیر رہتے ہیں روایتوں کے تأثر کا اپنا جادو ہے کہیں کہیں مری غزلوں میں میرؔ رہتے ہیں بہت اداس ہیں دیواریں اونچے محلوں کی یہ وہ کھنڈر ہیں کہ جن میں امیر ...

    مزید پڑھیے

    نہ تحریری شواہد نہ زبانی

    نہ تحریری شواہد نہ زبانی بھلا کس کام کی ایسی جوانی یہ جتنی نعمتیں دی ہیں خدا نے یہ پرچہ ہے ہمارا امتحانی کبھی وہ بھی تھے اس دنیا کی رونق وہ سب جو ہو گئے ہیں آنجہانی ہمیں تھا اشتیاق وصل لیکن ہمارے شوق سے ان کو گرانی یہ کیا ذہنوں پہ کرتے ہو حکومت کرو دل پر کسی کے حکمرانی ادھر ...

    مزید پڑھیے

    سر ورق پہ لکھا انتقام ہے شاید

    سر ورق پہ لکھا انتقام ہے شاید اسی بیاض میں میرا بھی نام ہے شاید کہا جو میں نے کہ کچھ احتجاج ہے برپا تو بولے ظل الٰہی عوام ہے شاید اٹھے جو ہاتھ دعا کو بدل گئے منظر خدا سے میرا یقیں ہم کلام ہے شاید میں آؤں تم کو نہ دیکھوں تو پھر پلٹ جاؤں تمہاری سمت سے یہ انتظام ہے شاید یہ آب و گل ...

    مزید پڑھیے

    گناہوں کی محبت گھٹ رہی ہے

    گناہوں کی محبت گھٹ رہی ہے ابھی گرد کدورت چھٹ رہی ہے ہماری پیاس کو دریا بھی کم ہیں مگر پیالوں میں بس تلچھٹ رہی ہے سمیٹے پھر رہے ہیں نفرتیں ہم گماں یہ تھا کہ الفت بٹ رہی ہے ضرورت خوب مہنگی ہو گئی ہے مگر انساں کی قیمت گھٹ رہی ہے جسے سن کر دھڑکتا تھا مرا دل ترے قدموں کی وہ آہٹ رہی ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیا کہ گلی میں ترا آنا نہیں ہوتا

    یہ کیا کہ گلی میں ترا آنا نہیں ہوتا اس درجہ ستانا بھی تو اچھا نہیں ہوتا ہم شہر محبت میں کریں لاکھ چراغاں جب تک نہ جلے دل تو اجالا نہیں ہوتا ہم زاد مرا ساتھ مرے رہتا ہے ہر دم جب ساتھ وہ ہوتا ہے تو پھر کیا نہیں ہوتا فطرت میں ہے دریا بھی سمندر کے برابر یہ بات الگ ہے کہ وہ گہرا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ شوخیاں یہ خمار جیسے شراب آنکھیں

    یہ شوخیاں یہ خمار جیسے شراب آنکھیں دکھا رہی ہیں ہر ایک شب ہم کو خواب آنکھیں ہمیں یقیں ہے کہ کیمروں کی نہیں ضرورت ہمارا ہر پل جو کرتی ہیں احتساب آنکھیں لگے ہوئے ہیں قطار میں بے شمار عاقبؔ نہ جانے کس کا کریں گی اب انتخاب آنکھیں سوال دل نے کیا محبت کا ڈرتے ڈرتے تو دے رہی ہیں ادا ...

    مزید پڑھیے

    کتنا لمبا ترا سفر دریا

    کتنا لمبا ترا سفر دریا اس کو کر تھوڑا مختصر دریا اس زمیں پر ہے بے گھری قسمت مر کے بن جائے اپنا گھر دریا مل گیا جا کے اب سمندر سے واہ تو ہو گیا امر دریا باندھ کر بندھ تجھ کو روک لیا معرکہ ہو گیا ہے سر دریا بیچ اپنے جو ہو گئی حائل اس بلندی سے اب اتر دریا تیرا سیلاب سنگ دل ہے ...

    مزید پڑھیے

    تو کسی اور کی ہے بات یہ سوچی تو نہ تھی

    تو کسی اور کی ہے بات یہ سوچی تو نہ تھی بے وفائی تری عادت سہی اچھی تو نہ تھی ہر سہیلی تری کرتی رہی جس کی تعریف تیرے ہاتھوں پہ لہو تھا مرا مہندی تو نہ تھی تو جو آیا تو مرے چہرے پہ لوٹی رونق تجھ سے پہلے مری حالت کبھی ایسی تو نہ تھی تیری یادوں کی کسک ہے کہ بڑھی جاتی ہے یہ ہوا رات تری ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے چہرے کی جو چمک ہے

    تمہارے چہرے کی جو چمک ہے یہ سات رنگوں کی اک دھنک ہے تمہاری چوڑی کی جیسے چھن چھن تمہارے لہجے میں وہ کھنک ہے سبک روی جیسے بہتا پانی تمہارے چلنے میں وہ لچک ہے غزال سی ہیں یہ تمہاری آنکھیں حیا بھی جن میں پلک پلک ہے جہاں رکھو تم قدم زمیں وہ مرے لیے تو حسیں فلک ہے اگرچہ باتیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3